جنرل اختر عبدالرحمان اور جہاد کشمیر

اخذ و تحقیق: راجہ حیدرزمان کشمیری

جہاد کشمیر اور 1948 ء، 1965ء اور 1971 ء کی پاک بھارت جنگوں میں جنرل اختر عبدالرحمن شہید کی فوجی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والا یہ اس عظیم مجاہدپاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف کس جذبہ سے لڑا اور اپنی شجاعت کی داد وصول کی۔ 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر اختر عبدالرحمان کی اہم کامیابی ”پانڈو ایکشن“ تھا، وہ اس وقت ابھی صرف لیفٹیننٹ تھے۔ پانڈو ٹیکری کی بلندی تقریباً دس ہزار فٹ کے لگ بھگ تھی اس محاذ پر دشمن کی نفری بہت زیادہ تھی لیفٹیننٹ اختر عبدالرحمان کمال مہارت سے ٹیکری کے عقب میں جا پہنچے اور اپنی قلیل نفری کے ساتھ دشمن پر حملہ کر دیا۔ کہتے ہیں کہ مسلسل چوبیس گھنٹے تک لڑائی ہوتی رہی، اور اس دوران یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ لیفٹیننٹ اختر عبدالرحمان شہید ہو گئے ہیں۔ دودن بعد جب لڑائی ختم ہوئی تو پانڈو ٹیکری کی ڈھلوانیں دشمن کی لاشوں سے اٹ چکی تھی۔ اختر عبدالرحمان فتح یاب ہو چکے تھے۔ دس فٹ کی بلندی پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا۔ اپنی شہادت سے تقریباً ایک مہینے پہلے جنرل اختر عبدالرحمان نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی کی حیثیت سے بلوچ سنٹر ایبٹ آباد کا دورہ کیا، تو اپنے اس کشمیر مشن کی یادوں کو اس طرح تازہ کیا، ”پانڈو ٹیکری کو میں نے فتح کیا۔ یہ حملہ بالکل مختلف قسم کا تھا۔ بلوچ ایف ڈی ایل بٹالین تھی۔ ایف ایف کے سپاہی بھی سامنے تھے۔ ہم نے پیچھے سے حملہ کیا۔ چوبیس گھنٹے لڑائی چلتی رہی۔ آج پانڈو کی ٹیکری ہمارے پاس ہے۔ کچھ عرصہ بعد 163بریگیڈ کا سکھ کمانڈر مجھے انگلینڈ میں ملا اور اس معرکے میں شامل تمام جوانوں کی جنگی مہارت اور جرات کی تعریف کی۔میں بلوچ رجمنٹ کی کارکردگی کا چشم دید گواہ ہوں اور اس کو سلام پیش کرتا ہوں۔“بریگیڈیر سلیم اللہ نے بھی پانڈو اپریشن پر اپنی یادداشتوں میں لفیٹننٹ اختر عبدالرحمان کی جرات اور جنگی مہارت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ 1965 ء کی جنگ کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں۔ کبھی اسے سیاسی مہم جوئی کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے اور کبھی اقتدار پرست سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن، ایک بات جس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں، وہ یہ ہے کہ پاک فوج کا ہر سپاہی ہر افسر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑا او راپنے سے کئی گنا زیادہ فوج کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے عہد رفتہ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی اور ان جوانوں میں میں اختر عبدالرحمان کا نام بھی شامل ہے۔1948ء میں پانڈو آپریشن کا ہیرو لیفٹیننٹ اختر عبدالرحمان اب لیفٹیننٹ کرنل بن چکا تھا۔لیکن اب کی بار محاذ جنگ لاہور تھا۔لیفٹیننٹ کرنل اختر عبدالرحمان ایک آرٹلری رجمنٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ کے طور پر برکی کے محاذ پر پہنچے اور دشمن کے سیل بے پناہ سے ٹکرا گئے۔ طاقت کے نشے سے چور ہندو بنیے نے رات کی تاریکی میں اچانک لاہور کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اسے اپنی کامیابی کا اس قدر یقین تھا کہ سات ستمبر کو جم خانہ کلب لاہور میں جشن فتح منانے کا اعلان کر دیا گیا۔ بی بی سی نے لاہو ر پر بھارتی فوج کے قبضہ کی خبر نشر کر دی تھی ۔کرنل اختر عبدالرحمان کی رجمنٹ نے دفاع وطن کا مگر حق ادا کر دیا۔ دشمن زخمی سانپ کی طرح پاکستان کی سرحد پر سر پٹختا رہا مگر پاک فوج کے جوانوں نے اس کا سرکچل کر رکھ دیا۔ جنرل اختر عبدالرحمان نے 1965 ء کی جنگ کی یادوں کو تازہ کرتے ایک بار کہا تھا کہ لاہور کی طرف پیش قدمی کرتی بھارتی فوج پر پہلی گولی ہماری یونٹ نے چلائی تھی۔ہم نے بھارتی پیش قدمی کی رفتار کو اس حد تک روک دیا اوران کی صفیں اس طرح درہم برہم کر دیں کہ ہماری لڑاکا فوج کو میدان میں اپنی پوزیشنیں سنبھالنے اور دشمن سے دو بدو ہونے کیلئے کافی وقت مل گیا۔ اس لمحے مجھے یقین ہو گیا کہ ہم نے بھارتی مہم جوئی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ جنگ بندی سے کچھ پہلے اختر عبدالرحمان کو ایک اور اہم ذمے داری سونپ دی گئی، یعنی نئی آرٹلری رجمنٹ کی تنظیم اور اسے کم سے کم وقت میں راجستھان کے محاذ پر پہنچانا۔یہ کام ہنگامی بنیادوں پر ہونا تھا، کیونکہ بھارت کی مکارانہ ذہنیت آشکار ہو چکی تھی اور آنے والا ہر لمحہ غیر یقینی تھا۔ بریگیڈیر ترمذی اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ اختر عبدالرحمان لاہور کے محاذ پر ایک شدید معرکہ لڑ کے آئے تھے، ان کو راجستھان کے اگلے محاذ پر پہنچنے کی جلدی تھی، جونہی طلوع سحر سے ذرا پہلے ہم اپنی منزل پر پہنچے، ہمیں فی الفور جنگی مورچوں پر پہنچنے کا حکم ملا اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر ہماری توپوں کے دہانے کھل گئے اور دشمن پر آتشیں گولوں کی بارش ہونے لگی۔ 1971 کی جنگ نہ جانے جنگ تھی یا سیاسی بساط پر داخلی اور خارجی شاطر اپنے مہروں کو مذموم مقاصد کے تحت آگے بڑھا رہے تھے، مگر پاک فوج کے سچے اور کھرے سپاہی جہاں کہیں بھی تھے، اپنی روایتی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن سے برسرپیکار تھے۔ کرنل اختر عبدالرحمان اب بریگیڈیر بن چکے تھے اور قصور سیکٹر میں تھے، جو جنگ کا ایک سرگرم سیکٹر تھا۔ دشمن بھاری قوت کے ساتھ پاکستان کے زیادہ سے زیادہ علاقہ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا ، مگر اختر عبدالرحمان نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔ نہ صرف یہ کہ بھارت پیش قدمی نہ کر سکا بلکہ اس کو اپنے کئی مربع میل علاقے سے محروم ہونا پڑا۔ حسینی والا سیکٹر میں 3 پنجاب اور 41 بلوچ نے دشمن کو نو گھنٹوں کے اندر اندر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔ اختر عبدالرحمان آٹھ یونٹس کا فائر ڈائریکٹ کر رہے تھے۔ آزاد کشمیر میں 1973 سے 1974 تک انفنٹری بریگیڈ اور 1974 سے 1975 تک انفنٹری ڈویژن کی کمان کا زمانہ بھی جنرل اختر عبدالرحمان کی فوجی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس عرصے میں انھوں نے آزاد کشمیر کے دفاع اور جنگ کی صورت میں مقبوضہ کشمیر کی طرف برق رفتار پیش قدمی کے انتہائی اہم منصوبے بنائے۔ اپنی زیرکمان علاقے کی ایک ایک انچ زمین کا پیدل جائزہ لیا، کوئی چوکی ، کوئی گن پوسٹ، کوئی مورچہ ایسا نہ تھا، جہاں وہ خود نہ پہنچے ہوں۔ ان کی زیرکمان پورا بریگیڈ دشمن کیلئے آہنی دیوار تھا،اور مختصر ترین وقت میں دشمن کو سبق سکھانے کیلئے تیار بھی۔ اس دور کے ان کے ایک سینئر ساتھی کے بقول، ایک شام میں اور بریگیڈیر اختر عبدالرحمان اکٹھے ہی نکلے۔ وہ مجھے اپنے ہمراہ ایک ایسی پہاڑی پر لے گئے، جہاں سے مقبوضہ کشمیر کا ایک بڑا قصبہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ وہاں بت کی طرح کھڑے ہو گئے۔ اور کافی دیر تک نظریں گاڑے اس قصبے کو دیکھتے رہے۔ شام گہری ہو رہی تھی قصبے کی بتیاں ایک ایک کرکے روشن ہونے لگیں۔اچانک بریگیڈیر پر ایک خاص طرح کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کے دانت سختی سے بھینچ گئے۔ اور اس نے جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر کہا، بس ایک بار مجھے آرڈر مل جائیں، پھر دیکھو میں کیا کرتا ہوں۔ پھر وہ بے چینی کے عالم میں پنجرے میں بند شیر کی طرح ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ میں نے ان کی آنکھوں میں جھانکا، جن مٰیں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے دکھ کا احساس شبنمی قطروں کی صورت میں تیر رہا تھا۔ انسانی ارادہ وعمل سے بے نیاز قدرت نے جنرل اختر عبدالرحمان کے مقدر میں اپنے جو ہر دکھانے کیلئے جہاد افغانستان کا محاذ لکھ رکھا تھا اور تاریخ کا ایک عظیم معرکہ اختر عبدالرحمان کی صلاحیتوں کو آواز دینے والا تھا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے نتیجہ میں ہی مقبوضہ کشمیر میں جنگ آزادی کو مہمیز ملی، بلکہ امریکہ کے ایک معروف عسکری ماہر کے بقول جینیوا سمجھوتہ پر دستخط کرانے کی امریکہ کو جلدی اس لیے بھی تھی کہ امریکہ سمجھتا تھا کہ اگر افغانستان میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان کی مرضی کی افغان حکومت قائم ہو گئی تو اس کے ان دونوں جرنیلوں کا اگلا ہدف مقبوضہ کشمیر ہو گا۔ لہٰذا پہلے ایک سازش کے تحت اوجڑی کیمپ کو تباہ کیا گیا، اور اس کے بعد 17 اگست 1988 کو جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان کوبھی شہید کر دیا۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ان کی کامیابی سے بطن سے پھوٹنے والی آزادی کی لہر نے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو اس طرح مہمیز دی کہ آج مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی شعلہ جوالہ بن چکی ہے اور بھارت اس شعلہ آزادی کو بجھانے میں قطعاً ناکام ہو چکا ہے۔

جنرل اختر عبدالرحمان شہید اور آئی ایس آئی محمد نوریز خان

قدیم اور جدید عسکری تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ جنگیں خفیہ ایجنسیوں کے بل پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ جن لوگوں نے دنیا کے عظیم فاتحین کی داستان حیات پڑھی ہے، ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ان کی جنگی فتوحات میں سب سے اہم فیکٹر ان کی خفیہ ایجنسیاں تھیں۔ بقول فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی، خفیہ ایجنسیاں فوج کی آنکھیں ہوتی ہیں، جن سے وہ اپنے دشمن کو دیکھتی، اس کے خلاف حکمت عملی وضع کرتی اور فتح حاصل کرتی ہے۔آج بھی دنیا کے سبھی ممالک اپنی اپنی خفیہ ایجنسیوں کو لامحدود بجٹ فراہم کرتے ہیں، ان کو طاقتور سے طاقتور بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں، اور ان کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہی ملکی سلامتی سے متعلق اہم اور بنیادی فیصلے کرتے ہیں۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلی جنس) کی بنیاد 1948ء رکھی گئی، لیکن اس کو عالمگیر شہرت سوویت یونین کے خلاف افغٖانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی گوریلا جنگ کے دوران حاصل ہوئی، جب جنرل ضیاالحق کے معتمد خاص جنرل اختر عبدالرحمان اس کی سربراہی کر رہے تھے۔افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد 22 مارچ 1989ء کو واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ:”17 اگست 1988 ء تک، جب جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان نے شہادت پائی، آئی ایس آئی تیسری دنیا کی سب سے موثر اور جدید ترین انٹیلی جنس ایجنسی کا مرتبہ حاصل کر چکی تھی اور یہ مغربی سفارت کاروں اور عسکری مبصرین کی متفقہ راے ہے۔“ آئی ایس آئی نے یہ پوزیشن کیسے حاصل کی، اس کی بھی ایک کہانی ہے، جو جون 1979ء سے اگست 1988ء تک پھیلی ہوئی ہے۔ جون 1979ء میں آئی ایس آئی چیف محمد ریاض خان حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے تو نئے چیف کے لیے جنرل ضیاالحق کی نگاہ انتخاب جنرل اختر عبدالرحمن پر پڑی۔ ایک ایسے وقت میں یہ ذمے داری ان کے سپرد کی گئی، جب پاکستان اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بڑی مشکل صورت حال سے دوچار تھا۔ افغانستان عدم استحکام کا شکار تھااور مہاجرین کا کوئی نہ کوئی قافلہ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں داخل ہو رہا تھا۔ ایران میں ڈھائی ہزار سالہ شہنشائیت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور امام خمینی کی قیادت میں ایرانی معاشرہ ایک انقلاب کے عمل سے گزر رہا تھا۔ پاکستان کے اندر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاالحق کے خلاف اپوزیشن متحد ہو چکی تھی۔ان غیر واضح حالات میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی خفیہ ایجنسی را پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوچکی تھی۔ آئی ایس آئی اس وقت تک پیشہ ورانہ لحاظ سے اوسط درجہ کی خفیہ ایجنسی تھی اور پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کو موثر طور پر ناکام بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ جنرل اختر عبدالرحمان نے مگر یہ مشکل ترین چیلنج قبول کیا اور آئی ایس آئی چیف بنتے ہی اسے ایک موثر خفیہ ایجنسی بنانے کے لیے اپنی تمام صلاحتیں صرف کر دیں۔ نئی اور بہترین افرادی قوت بھرتی کی۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جفاکش جوان اور ذہین افسر اکٹھے کیے۔ ان کو ہر طرح کے وسائل فراہم کیے۔ ان کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تریبت کی۔اس طرح اپنی محنت، مہارت اور لگن سے کچھ ہی عرصہ میں آئی ایس آئی کو پیشہ ورانہ لحاظ سے ایک ایسی زبردست فورس میں تبدیل کر دیا، جس پر ہر طرح کے حالات مٰیں فوج انحصار کر سکتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے قدرت کو جنرل اختر عبدالرحمن اور آئی ایس آئی سے کوئی بہت بڑا کام لینا مقصود ہے۔ یہ اندازہ اس وقت سچ ثابت ہوا کہ دسمبر 1979ء میں افغانستان میں وہ میدان کارزار گرم ہو گیا، جس کے لیے دست قد رت جنرل کی پرورش کر رہا تھا۔روسی فوجیں اپنے بکتر بند دستوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو گئیں اور عملی طور پر اس کو اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا۔ پاکستان کے پاس اب دو راستے تھے، پہلا یہ کہ چپ سادھ لی جائے، دوسرا یہ کہ روسی فوجوں کے خلاف افغان مزاحمت کا ساتھ دیا جائے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی بطور آئی ایس آئی چیف رائے یہ تھی کہ روس کو اگر افغانستان میں نہ روکا گیا، تو اگلی باری پاکستان کی ہوگی۔جنرل ضیاالحق کی بھی یہی رائے تھی۔ بہرحال اس جنگ میں پاکستان کو بالواسطہ طور پراپنا کردار ادا کرنا تھا، گویا عملی طورپر یہ جنگ آئی ایس آئی کو لڑنا تھی۔ آئی ایس آئی نے یہ جنگ کس طرح لڑی اور جیتی، دنیا کی جنگی تاریخ کا یہ ایک انتہائی ولولہ انگیز باب ہے۔ امریکہ کے عسکری امور کے ماہر بروس رائیڈل نے افغانستان پر اپنی تحقیقی کتاب what we won: America s Secret War in Afghanistan 1979 – 89 میں اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ: یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی، جس نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو لیڈرشپ، ٹریننگ اور سٹریٹجی مہیا کی اور یہ افغان عوام اورپاکستان ہی تھے، جنہوں نے اس عظیم جنگ کا تمام تر خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی سربراہی میں آئی ایس آئی نے اندرون ملک بھی اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور ثبوت دیا۔ جولائی 1980ء کے پہلے ہفتے میں ایک مذہبی گروہ نے اسلام آباد میں عملی طور پر سول سیکرٹریٹ کا محاصرہ کرلیا، دفاتر بند ہو گئے، حکومتی مشینری مفلوج ہو گئی۔ جب وزارت داخلہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے، تو صدر نے یہ مشن جنرل اختر عبدالرحمن کو سونپا، جنہوں نے بغیر کسی خون خرانہ کے انتہائی مہارت کے ساتھ اس کو اس طرح حل کیا کہ مذہی گروہ نے محاصرہ ختم کر دیا اور مطمئن ہو کر گھر چلا گیا۔کچھ عرصہ بعد جب کچھ فوجی افسروں نے یوم پاکستان کی پریڈ پر صدر پاکستان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، تو یہ منصوبہ بھی آئی ایس آئی نے پکڑا اور ناکام بنایا۔ اسی طرح جب اسلام آباد میں کچھ مشتعل مظاہرین نے عین اس وقت امریکن سنٹر کو آگ لگا دی کہ اس کے اندر امریکی عملہ بھی موجود تھا، تو جنرل اختر عبدالرحمن نے ہی بطور آئی ایس آئی چیف ریسکیو آپریشن کی نگرانی کی اور ان امریکیوں کو بحفاظت باہر نکالا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی نگرانی اور ہدایت پر ہونے والی ایسی بہت ساری اندرونی اور بیرونی کارروائیاں ہیں، جن کا ذکر ریاست کی رازداری کے پیش نظر ان سطور میں نہیں کیا جا سکتا۔ مارچ 1987ء میں جب جنرل اختر عبدالرحمن کو فورسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنایا گیا تو آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی صف اول کی خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا تھا۔17 اگست 1988ء کو جب جنرل اختر عبدالرحمن، جنرل ضیاالحق کے ساتھ ہی شہید کر دیے گئے، تو بہت کم لوگوں کو آئی ایس آئی کے اس عظیم جنرل کے نام اور کام سے آگاہی تھی، لیکن پھر اس راکھ کے ڈھیر سے ان کی فوجی عظمت اس طرح شعلہ بن کر نمودار ہوئی کہ پوری دنیا ششدر رہ گئی